مصطفیٰ کمال اور میڈیا
محترم حامد میر ،انصارعباسی و عبد المالک صاحبان
حسب روایت آپ کا پروگرام کیپٹل ٹاک مورخہ 7 ستمبر دیکھ کر ملے جلے تاثرات تھے -یہ حقیقت ہے
کے اس قسم کا کوئی بھی پروگرام تمام ناظرین کو بیک وقت مطمئن نہیں کرسکتا ساتھ ہی یہ بھی افسوس
ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی صحافی "آزاد "ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا - ہر صحافی کا "مختلف
وجوہ" سے اپنا ایک انفرادی ایجنڈا ہے جس کے حساب سے وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کو اس معاشرے
میں ذاتی مقاصد کے خانے میں اس طرح فٹ کرتا ہے کہ : رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
مصطفیٰ کمال نے اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا سے جو شکوہ کیا ہے وہ نہ صرف جائز ہے بلکہ شکووں
کے آئس برگ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے - یوں تو صحافیوں کی اس روش پر پورا ایک تھیسس لکھا جا سکتا
مگر فی الحال صرف چند نکات ہی کافی ہیں :
ذوالفقار مرزا کے ہذیان(جو انکی اپنی پارٹی اور دوسری طاقتیں مسترد کرچکی ہیں ) کے ان تمام نکات کو
میڈیا بہت اہمیت دے رہی ہے جو ایم کیو ایم کے خلاف محض بہتان ہیں مگر ان کے ہذیان کے جن نکات پر خود
انکے خلاف تحقیق ہونی چاہیے انکو سراسر نظر انداز کیا جا رہا ہے
- مثال کے طور پر سرکاری دستاویز انکے پاس کیوں ہیں جنہیں وہ ذاتی حیثیت میں استعمال کر رہے ہیں -
- کراچی پولیس میں بھرتی دس ہزار افراد کس قانونی اختیارات کے تحت صرف سندھ دیہی سے بھرتی کئے گئے-
- اسلحے کے تین لاکھ لائسنس کس بنیاد پر جاری کئے اور انکے استعمال کے بارے میں اشارے -
- کراچی پولیس میں مقامی افراد کی تعداد کتنی ہے ، آئ جی سندھ اور دیگراعلیٰ پولیس افسران کی تقرری(خاص
طور پر اندرون سندھ سے تبادلۂ اور ترقی پانے والے پولیس والے ) کس قانون کے تحت ہوئی ہے -
- پی پی پی کے دور میں پولیس میں بھرتی ہونے والے کتنے افراد کا ماضی داغدار ہے -
- اٹھارہ افراد کے رہا کرانے کے دعوے میں کون کون لوگ شامل تھے اور کن لوگوں کے قبضے سے ان کو رہا
کرایا گیا وںیز کن لوگوں سے بات کی گئی- ماضی میں بھی اسی قسم کے واقعات ھوئے مگر صحافیوں نے ان کی
کوئی تحقیقات نہیں کیں اور نہ ہی پس پردہ معاملات کی کھوج لگانے کی کوشش کی -
- چکرہ گوٹھ حادثے کے معاملے میں صحافیوں نے دونوں بنیادی معاملات یعنی "سادہ لباس میں اندرون سندھ سے
اسلحہ بردار پولیس وہاں کیا کرنے جا رہی تھی " اور " پولیس پر حملے کے الزام میں گرفتار شدگان ایک اخباری
خبر کے مطابق غیر متعلق افراد ہیں " کے بارے میں اپنی ذمے داریاں کیوں نہیں پوری کیں -
شیر شاہ قتل عام کے ذمے داروں کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے اور قاتلین کو پہچاننے پر لواحقین کو نیست نابود
کرنے کی دھمکیاں کس نے دیں-
- منی بس سات سواریوں سمیت جلانے کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے مجرموں کی ایک سیاسی پارٹی کی
رکنیت معلوم ہونے کے بعد بھی اس پارٹی کے ذمے داروں سے میڈیا والوں نے کوئی پوچھ گچھ کیوں نہیں کی -
- کٹی پہاڑی اور دیگر علاقوں میں پولیس اور رینجرز کی کئی دنوں تک عدم مداخلت کس کے حکم سے ہوئی -
کیا ان تمام معاملات میں میڈیا کی پیشہ ورانہ ذمے داری نہیں تھی کہ وہ صاحبان اقتدار اور ذمے داران
سے اس کے مکمل حقائق حاصل کرکے قوم کو آگاہ کرے -
اس بار ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی یہ شکایت کراچی کے عوام کو خاص طور پر ہے کہ میڈیا تمام عوامی مسائل
کو ایک مخصوص نظریہ کے تحت ہی پیش کرتی ہے - جس سے کراچی کے مسائل کی جڑ سامنے نہیں آنے پاتی
اور ہر کالم نویس ،اینکر وغیرہ اس معاملے کو گنجلک معاملہ بناکر پیش کرتے رہتے ہے- متحدہ کے خلاف جس
طرح ہر دور میں الزام تراشیاں ہوتی رہیں اور ان الزام تراشیوں کوجس طرح میڈیا بھر پور طریقے سے اچھالتی
رہی ہے اس سے تو میڈیا کا اصل چہرہ پوری طرح سامنے آچکا ہے - میڈیا کے لوگ جس طرح دانستہ یا ںا دانستہ
غیر جمہوری قوتوں کے ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں اس سے پاک وطن کو سواے بربادی کے کچھ اور حاصل نہ
ہوگا - کراچی میں مسترد شدہ سیاسی پارٹیاں ، وڈیرہ شاہی کے شہروں پر بھی تسلط کے خواہشمند ،سرکاری سرپرستی
میں پھلنے پھولنے والی زمین ،منشیات ، اسلحہ اور دیگر مافیا کے بارے میں سرسری طور پر تو لکھا جاتا ہے مگر
سنجیدہ طور پر کوئی ان مسائل کی حقیقت اور اس کے ذمے داروں کے خلاف لکھنے کی یا تو ہمت نہیں کرتا یا خود
اسکا حصہ ہوتا ہے - کراچی کے باسی اور انکی منتخب کردہ جماعت کی یہ خواہش کہ کراچی کے معاملات جمہوری
طور پر چلا ئے جائیں تاکہ لوگ سرکاری اور پرائی زمینوں پر ناجائز قبضہ ،بھتہ خوری ، اسلحہ اور منشیات کی تجارت
سرکاری سرپرستی میں نہ کرسکیں ادھر سرکاری سرپرستی والی مافیا اور وڈیرہ شاہی سیاستدانوں کی مرضی یہ ہے
کہ معاملات صرف اور صرف انکی جنبش ابرو کے محتاج ہوں - تاکہ سیاسی اور سرکاری معاملات کے ساتھ ساتھ قبضہ
اور دیگر مافیاؤں کے اشتراک سے انکے لئے مال دولت اور طاقت بٹورنے کی لا محدود آسانیاں ہوں - یہی کراچی کا
اصل مسئلہ ہے جو میڈیا پورے طور پر پیش نہیں کرتا -
مصطفیٰ کمال کے اٹھارہ افراد کی رہائی کے سوال پر جس طرح عبد المالک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے وہ ثبوت ہے
اس بات کا کہ جیسا میں نے ان سطور میں اوپر تحریر کیا ہے کہ میڈیا وہ کام نہیں کرتی جو اسکو سب پہلے کرنا چاہیے
اور شکایات کے جواب میں " آپ ہمیں بتائیںگے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ؟" یا " بش والی بات کہ یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے
خلاف ہو "..............یہ ساری غیر متعلقہ باتیں تھیں جبکہ اصل بات کا جواب بڑی صفائی سے گول کر گئے -
کیا یہ سارے معاملات اس ذہنیت کے عکا س نہیں کہ میڈیا کسی خاص ایجنڈے کے تحت کام کرتی ہے -
محمد اسلم شہاب
No comments:
Post a Comment