یہ کیسی صحافت ہے ؟؟؟؟؟؟
محترمین حامد میر، انصار عباسی ،عبد المالک صاحبان ذیشان
کل رات ( ٩.٩.٢٠١١ ) آپکے پروگرام میں ایک بار پھر وہی "میں نہ مانوں " کی تکرار دیکھ کر بہت کوفت ہوئی -
جس طرح پاکستان کے اصل حکمران تو جی ایچ کیو میں بیٹھے ھوئے جنرلز ہیں اسی طرح ہماری میڈیا کے مالکان ،
ایڈیٹرز، کالمسٹ وغیرہ سب ہی اپنے آپ کو حرف آخر سمجھتے ہیں - ہمیشہ کی طرح کل کی الطاف حسین کی پریس
کانفرنس پر جس طرح آپ حضرات کی تنقید اور تبصرے ھوئے ہیں اور جس طرح کی باتیں خاص طور عبدالمالک
صاحب نے کی ہیں ان سے آپ لوگوں کی حقیقت پسندی اور غیر جانبداری کا پول کھل جاتا ہے علاوہ ازیں جس طرح
حامد میر صاحب زاہد خان پر غصہ ھوئے اور انکو بری ڈانٹا وہ کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا -
برادران عزیز الله کے واسطے بحیثیت صحافی اپنی ذمہ داریاں ،اپنے فرائض ایک صحافی کے طور پر ادا کریں
اپنے آپ کو اقلیم صحافت کے شہنشاہ اور شہزادے سمجھنا چھوڑ دیں-
حامد میر صاحب اپنا غصہ دکھا کر پتہ نہیں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ارے بھائ یہی بات آپ مہذب طریقے سے بھی کہہ
سکتے تھے - اور الطاف حسین کی کسی اینکر پر تنقید جو ایم کیو ایم کی کراچی کی نمائیندگی کی حیثیت کو کم کرنے کی
کی بات کر رہے تھے کے جواب میں " دودھ کے دھلے " عبدالمالک صاحب کا یہ رویہ کہ "اب آپ لوگ ہمیں بتائنگے
کہ ہمیں کیا کرنا ہے " صحافتی فرعونیت کہلائے گا - پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وڈیرہ شاہی کے بعد صحافی ہی وہ
تیسری طاقت ہیں جنہوں نے ہمیشہ قابض طاقت کی کاسہ لیسی کی - آج بھی صحافیوں کی اکثریت کسی نہ کسی ذاتی
ایجنڈے کے تحت کام کرتی ہے - صحافت آج بظاھر آزاد نظر آتی ہے مگر در حقیقت یہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ
پابند ہے حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے کی وجہ سے -
No comments:
Post a Comment