کراچی کا مسئلہ اور آدھا سچ
کراچی کا مسئلہ حکومت، میڈیا ،سیاستدان ،جی ایچ کیو وغیرہ کچھ ایسے پیش کرتے ہیں جیسے یہ کوئی بہت
پیچیدہ ،گنجلک ،گھمبیر اور حل نہ ہونے والا مسئلہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ بہت ہی آسانی سے
اسلامی ،جمہوری اور قانونی طور پر سمجھا اور حل کیا جاسکتا ہے -صحافی حضرات پرنٹ اور الکٹرونک پر
یہ مسئلہ کسی نہ کسی ایجنڈے کے تحت پیش کرتے ہیں - یہ انکی روٹی روزی ہے اور وہ بھی معاشرے
کے دیگر طبقات کی طرح اتنے ہی بھٹکے ہو ئے ہیں بلکہ شاید باقی طبقوں سے زیادہ-
بگڑے ہوے طبقوں میں سب ہی شامل ہیں مثال کے طور پر :
جرنیلوں کا طبقہ : ملک کی تمام تر خرابیوں کا سب سے برا ذمہ دار یہی طبقہ ہے جو آج بھی "حقیقی حکمران "
ہیں - 1954 سے جنرل اسکندر مرزا سے لیکرآج تک جنرلز ہی اس ملک پر قابض ہیں - درمیان میں ایک ایسا
وقت بھی آیا تھا جب قوم ان فوجی حکمرانوں سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کرکے مکمل سول حکومت
کی مستقل بحالی کی طرف جا سکتی تھی - وہ وقت مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا وقت تھا مگر افسوس
کہ نام نہاد جمہوریت کے نام نہاد داعی ذوالفقار علی بھٹو نے شہنشاہ پاکتسان بننے کے چکر میں ان جنرلوں کو
پھر سے اپنے اوپر سوار کرلیا اور پھر دنیا نے بدنیتی کا نتیجہ بھی دیکھ لیا -علاوہ ازیں جب کبھی جنرلز یہ
دیکھتے ہیں کہ اب پوری قوم انکے خلاف اٹھ کھڑی ہونے والی ہے تو یہ Tactical Retreat کر تے
ہوے خود کو کچھ عرصے کے لئے پیچھے کرکے اپنے پالے پوسے ہوے جاگیرداروں ،وڈیروں،سرداروں اور
خانوں کو انہی افراد پر مشتمل سیاسی پارٹیوں کی شکل میں آگے کردیتے ہیں -جنہیں صرف مخصوص دائرہ عمل
دیا جاتا ہے اور اصل طاقت جنرلز کے ہاتھ میں ہی رہتی ہے -اسکے ساتھ ساتھ حالات اس طرح سے خراب کرتے
رہتے ہیں کہ قوم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ اس نام نہاد جمہوری حکومت سے تو فوجی دور ہی بہتر تھا -
سیاستدانوں کی مافیا : یہ مافیا جنرلوں کی چھتر چھایا پھولی پھلی ہے اور دن بہ دن مزید طاقت ور ہو رہی ہے -
دیہی آبادی کو اپنے "قبضہ قدرت "میں ٦٥ سال تک رکھ کرملک کے تمام تر وسا ئل پر قبضے میں جنرلوں کے
برابر کے شریک ہیں - ان کے حوصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کے یہ اب تمام شہروں کو بھی اپنے "وڈیرہ شاہی"
کے خوفناک چنگل میں جکڑنا چاہتے ہیں-
عدالتیں : جسٹس محمد منیر سے لیکر جسٹس عبدلحمید ڈو گر اور اس کے بعد بھی یعنی آج تک انصاف کی
"Dogarisation" ہی نظر آئی ہے - انصاف ہوتا کہیں نظر نہیں آتا موجودہ سپریم کورٹ بھی پی پی پی حکومت
کے ساتھ نورا کشتی کھل رہی ہے -یہ سب عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے ہو رہا ہے - اور اس کھیل میں مزید
سال ڈیڑھ سال لگے گا تاکہ پی پی پی کی حکومت اپنی میعاد پوری کرلے اور پوری طرح سے ملک کو
لوٹ لے -گنتی کے چار پانچ کیسز لیکر عوام کو بہلایا جا رہا ہے -سپریم کورٹ کے پاس انتہائی اہمیت کے
حا مل نہ جانے کتنے کیسز جانے کب سے پرے سڑ رہے ہیں انکا نمبر کبھی نہیں آ ئیگا -
قانون "نافذ" کرنے والے ادارے : یہ تمام کے تمام صرف اور صرف اپنے فوجی ،حکومتی ،اور سیاسی
آقاؤں کے دئیے گئے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں -قانون کے نفاذ سے انکا کوئی لینا دینا نہیں ہے -یہ صرف
اور صرف فوجی،سیاسی،اور جرائم کی مافیا کے لوگوں کی دامے درمے قدمے سخنے مدد فراہم کرتے ہیں -
بیو رو کریسی مافیا : یہ بھی اپنے اپنے دائروں میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا عملی ثبوت
دیتے رہتے ہیں - عہد حاضرمیں سپریم کورٹ میں چلنے والے کیسز سے متعلق بیو رو کریسی کی
بد معا شیاں ایک دنیا کو معلوم ہیں -
صحافت : صحافت بھی اپنے مخصوص آگندے کے تحت کام کر رہی ہے -میڈیا مالکان سے لیکر عامل
صحافی تک اپنے اپنے ذاتی مالی اور نظریاتی فوائد کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں
بڑی قربانیاں مانگے ہے چھوٹی سی یہ آزادی قلم آزاد ہونے تک ہزاروں سر قلم ہونگے
جس طرح ہمارے معاشرے میں کبھی طب اور تعلیم کے شعبے خدمت خلق کے تصور ہوتے تھے
مگر آج یہ انتہائی کامیاب تجارتی شعبے بن چکے ہیں اسی طرح صحافت بھی کبھی ایک مشن ہوا کرتی تھی
مگر اب شہرت و دولت کمانے کا آسان نسخہ بن چکی ہے - پورے ملک میں صحافت کومشن سمجھنے
والے صحافی شاید انگلیوں پر گنے جائیں تب بھی کم پڑ جائیںگے-
اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف کہ کراچی کا اصل مسئلہ کیا ہے :
کراچی کا پہلا مسئلہ: اسکی آبادی کا صحیح تخمینہ - سوا دو کروڑ آبادی والے شہر کی اسمبلیوں
میں نمائندگی اسی آبادی کے تناسب سے ہونی چاہیے -
کراچی کا دوسرا مسئلہ : ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ بوگس ووٹ کا معاملہ اس وقت بھی ملک
میں زیر بحث ہے -ان بوگس ووٹوں سے جہاں ملک کے دیگر علاقوں میں جاگیرداروں ،سرداروں
اور خانوں کو مستقل اکثریت میں رہنے کا فائدہ ہوتا ہے اسی طرح سندھ میں بھی یہ ایک طرف تو
دیہی علاقوں میں وڈیرہ شاہی برقرار رکھتے ہیں دوسری طرف شہری آبادی کو بھی اس کا جائز
حصہ نہیں لینے دیتے - حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سندھ کی شہری آبادی اگر سندھ کی دیہی آبادی
سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے مگر وڈیرہ شاہی نے سندھ شہری کی آبادی اپنے مذموم مقاصد
کے لئے کم ہی دکھانی ہے -وڈیرہ،جاگیردار ،خوانین اور سردار چونکہ ملک کے اصل مالکان
یعنی جنرلز کا داہنا ہاتھ ہیں اس لئے اس معاملے میں کبھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی -
کراچی کا تیسرا مسئلہ : ساری دنیا کے مہذب معاشروں میں عام سرکاری ملازمتوں سے لیکر
علیٰ افسران کی بھی اکثریت مقامی افراد پر مشتمل ہوتی ہے مگر کراچی شاید دنیا کا واحد شہر
ہے جس پر مقامی افراد کے علاوہ ہر شخص کا پہلا حق بنا دیا گیا ہے اور مقامی افراد کےنصیب
میں وڈیروں کے دستر خوان کی بچی ہوئی ہڈیاں ہی آتی ہیں - 60 /40 کا سمجھوتہ بھی نہ جانے
کب سے مدفون ہے - جب سے کراچی کے حقوق سے محروم طبقات نے باقاعدہ جمہوری
اصولوں پر چلتے ھوئے ایک سیاسی جماعت کو اپنے حقوق کا امین اورعلمبردار بنایا اس وقت سے
پاکستان کے وسائل پر غاصبانہ قابض طبقات نے نے نہ صرف اس سیاسی پڑتی بلکہ کراچی کے عوام
کو اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا اورانکو نیست و نابود کرنے کیلئے ہر ظلم روا رکھا گیا -
کراچی کا چوتھا مسئلہ : کراچی کی سوا دو کروڑ آبادی کے لئے جو حکومتی وسائل قومی و صوبائی
بجٹ میں فراہم کے جاتے ہیں وہ شاید نوے لاکھ کی سرکاری آبادی کے حساب سے ہوتے ہیں -جسکی
وجہ سے کراچی کے پانی، بجلی،سڑکیں اور دیگر بلدیاتی مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں -وہ دن دور
نہیں جب کراچی شہر ٹھپ ہو کر رہ جائے گا -
کراچی کا پانچواں مسئلہ : کراچی ملک کے دیگر حصوں سے آنے والوں کے لئے صرف "جھل کراچی
مچھ کما ئیا ں" کی تفسیر بنا ہوا ہے - جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ اسکو دبئی وغیرہ سمجھتے ہیں اور اس
سے اپنا صرف حق وصول کرتے ہیں اور اپنا فرض بھول جاتے ہیں -
کراچی کا چھٹا مسئلہ: کراچی کی ساٹھ فیصد سے زیادہ زمین پر یا تو فوج کا براہ راست یا باالواسطہ
قبضہ ہے یا مرکزی حکومت کسی نہ کسی شکل میں میں اس پر قابض ہے - فوج نے جس طرح سارے
بڑے بڑے شہروں میں چھا ونی کے نام پراچھی سے اچھی بڑی بڑی زمینیں حاصل کرکے اس پر
خالص تجارتی طورپر ڈیفنس سو سائٹی ،عسکری کمپلیکس وغیرہ کے نام پر ملک کے سب سے
بڑے رئیل اسٹیٹ ڈیولپر بن گئے ہیں -کراچی میں ان کا قبضہ سب سے زیادہ ہے -
کراچی کا ساتواں مسئلہ : وڈیرے اور جاگیردار یوں توپورے ملک پر " سیکنڈ ان کماند" کے طور
قابض ہیں مگر سندھ میں ان وڈیروں کی کراچی پرنظر خاص ہے کہ یہ تو ویسے بھی :
بے سائباں ہے شہر یہ میرا یتیم ہے انبار مسئلوں کا جبھی تو عظیم ہے
ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں انہی وڈیروں اور جاگیرداروں پر مشتمل ہیں اور کراچی جیسے شہر
کودیہی سندھ کی طرح وڈیرہ شاہی کے تحت لانا انکی ان کی سب سے بڑی ترجیح ہے - نام نہاد
جمہوریت کے نام پر کام کرنے والی یہ پی پی پی وڈیرہ شاہی کو کراچی پر پوری طرح مسلط کرنا
چاہتی ہے اور اس کے لئے وہ کسی حد تک بھی جا سکتی ہے کہ یہ اسکی بقا کا معاملہ ہے - جنرلز
کی یہ دونوں بی ٹیم سیاسی قبضہ گروپ وقتاً فوقتاً کراچی میں اپنی چنگیزیت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں
گزشتہ دوعشروں سے کچھ زیادہ عرصے میں کراچی کے بسوں کا جتنا خون بہایا گیا ہے وہ سب
کو معلوم ہے- پچیس ہزار سے زیادہ کا خون ناحق کس نے اور کیوں بہایا اور کسی کو بھی سزا نہیں
ملی -موجودہ حکومت کے دور میں ہی ہزاروں کراچی کے باسیوں کرے مکوڑوں کی طرح مارا گیا
اور کوئی ان کی داد رسی کرنے والا نہیں -سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہے مگر گزشتہ تجربات
اور سالہا ل سے سپریم کورٹ میں سڑ رہے کراچی سے متعلق بہت سارے کیسزکا حشر دیکھتےھوئے
انصاف ملنے کی امید موہوم ہے -
کراچی کا آٹھواں مسئلہ : کراچی کا آٹھواں مسئلہ یہاں بہنے والا خون ہے جو پانی سے بھی کہیں زیادہ
ارزاں جس کے بہنے پر کی کے کن پر جوں بھی نہیں رینگتی -شاید اس وجہ سے کہ ممکنہ طور پر
انصاف کرنے والا انتہائی طاقت ور طبقہ ہی خون بہانے والوں کی پشت پناہی کرتا ہے -----------
بے مثل کارکردگی دکھلائی آپ نے مقتل بنا دییے ہیں ہر اک گھر کے سامنے
-----------------------------
پھر ایکبار یہاں کربلا سجائی ہے لہو کے پھول بکھیرے ہیں پھر یزیدوں نے
-----------------------
کربلا ہے حسین ہے اور لشکر یزید تاریخ چاہتی ہے ہمارا لہو مزید
کراچی کے مسائل کی ذیل میں اور بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر فی الوقت
اتنا ہی کافی ہے - ان تمام مسائل کا آسان ترین حل صرف اور صرف جمہوری اقدار
کی سختی سے پابندی میں مضمر ہے - شرطیہ ہے کہ یہ جمہوریت پی پی پی کی جیالی
جمہوریت ،مسلم لیگ نواز کی نرالی جمہوریت ، پرویز مشرف کی وبالی جمہوریت ،
ذوالفقار علی بھٹو کی خیالی جمہوریت ، نہ ہو بلکہ حقیقی جمہوریت ہو جسمیں ہر فرد
کہ حقوق کی ضمانت دی جائے اور لوگوں کے مسایل مقامی سطح پر حل کرنے کا
بندو بست بھی کیا جائے یعنی جمہوریت کے ثمرات کو گلی محلوں بستیوں وغیرہ تک
پہنچایا جائے جیسا کہ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ہوتا ہے- عوامی معاملات صرف
اسلام آباد ،لاہور ،کراچی ،پشاور اور کوئٹہ میں ہی حل ہونے کا نظام فرسودہ ہو چکا ہے
اور عوام کو اپنے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لئے بغیر کسی بہتری کی امید نہیں ہے -